
جون ایلیا کی رزمیہ نظم “راموز” کچھ دن قبل شائع ہوئی۔ محترم خالد احمد انصاری صاحب کا اس ضمن میں جس قدر شکریہ ادا کیا جائے کم ہے۔ یہ ان کی انتھک محنت ، جان لیوا عرق ریزی اور جون صاحب سے والہانہ محبت کا ہی نتیجہ ہے کہ جون ایلیا کا کلام کتابی صورت میں شائع ہوا اور ایک عام قاری تک پہنچا ۔ اگر یہ نہ ہوتا تو غالب گمان تھا کہ اردو زبان ایک ہر لحاظ سے منفرد اور مکمل شاعر سے محروم رہ جاتی۔ جون ایلیا کے شعری مجموعے لیکن، کیوں، گویا، شاید پہلے ہی اہل علم و دانش کو مسحور کیے ہوئے ہیں۔ مزید برآں یہ کہ انکا نثری کارنامہ “فرنود” بھی علم اور فکر کی نئی جہت کا پتہ دیتا ہے۔
جون ایلیا نے جن موضوعات کا انتخاب کیا اس میں راقم کے علم کے مطابق ن م راشد کے علاوہ دور دور تک کسی شاعر کا پتہ نہیں ملتا۔ فلسفیانہ مسائل مثلاً مابعدالطبعیات، وجود اور ذات، الہیات، مذہب، طبقاتی تقسیم، مارکسیت اور علمیات کا ذکر جس انداز سے ملتا ہے وہ جون ایلیا کے علمی قد اور زرخیز ذہن پر برہان مبین کی حیثیت رکھتا ہے۔ میری ذاتی رائے میں جون ان چنندہ شخصیات میں سے ہے جنہیں ان موضوعات پر مغرب کے بہترین اذہان کے مقابل بلا جھجک کھڑا کیا جا سکتا ہے ۔
جون ایلیا سے میرا تعارف پریکٹکل سینٹر میں اردو کے استاد محترم اقبال ناز کے توسط سے ہوا۔ انہوں نے جون کا ایک شعر سمجھانے کے بعد جب شاعر کا نام بتایا تو ایسا منفرد نام سن کر حیران ہونا فطری عمل تھا۔ اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ جتنا منفرد نام ہے اس سے کہیں زیادہ منفرد شخصیت صاحب نام کی ہے۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ تقریباً دو سال بعد جون ایلیا سے سابقہ فیس بک پر پڑا۔ اس بار بھی وسیلہ پریکٹکل سینٹر کے ایک استاد جناب جاوید صدیقی صاحب بنے۔ ان کی ٹائم لائن پر جون ایلیا کے کئی اشعار اور اقتباسات موجود تھے جو جون ایلیا کے فیس بک صفحے سے شیئر کئے گئے تھے۔ اس صفحے پر جون کے ان گنت اشعار بہترین تخلیقی آرٹ ورک کے ساتھ موجود ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس صفحے کی نظامت کے فرائض خود خالد احمد انصاری انجام دیتے ہیں- اگر جون کی کتابوں تک رسائی نہ ہو تو یہ صفحہ کافی حد تک شاعر کے اشعار اور افکار کو سمجھنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔
جون کی شاعری کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے لئے ایک خاص سطح کی فکری اور علمی بالیدگی حد درجہ ضروری ہے۔ پہلی نظر میں عین ممکن ہے کہ آپ جون کی شاعری کو ایک ہیجان زدہ، نفی پسند اور خطرناک حد تک مایوس ذہن کی پیداوار قرار دے دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جون نے اپنے گردو پیش موجود انسانوں ، انسانی رشتوں اور معاشرتی اقدار میں موجود اندرونی تضاد کو جان لیوا شدت سے محسوس کیا اور اسی کو اپنے اشعار میں بیان کیا۔ ایک طرف ہم اس جون کو دیکھتے ہیں جو ہر چیز پر انسانی حکمرانی چاہتا ہے اور دوسری طرف وہ کمال لا تعلقی کہ خود اپنے وجود اور اپنی ذات تک سے دستبردار ہیں اور کبھی جون زمان و مکان کے صحرا میں شعور ذات کا بار اٹھائے اکھڑتی سانسوں کے ساتھ جستجو کی راہ پر گامزن نظر آتے ہیں۔
جون کی شاعری پوسٹ صنعتی دور کے انسان اور معاشرے کی عکاس معلوم ہوتی ہے اور اس دور کی ترجمانی کرتی ہے جس میں انسانیت اپنی سائنسی علم اور ٹیکنالوجی کے معاشرتی ، نفسیاتی اور اخلاقی نتائج سے نبرد آزما ہو رہی ہے ۔ اس ضمن میں جون اردو میں کسی حد تک وہی کام کر رہے ہیں جو نطشے، شوپنہا ئر ، کیر کیگارڈ، ہائڈگر، کافکا، سارتر اور البرٹ کامو نے مغربی فلسفہء موجو دیت میں کیا۔
نثر پر نگاہ ڈالیں تو فرنود جو در اصل مختلف ادوار میں لکھے گئے انشائیے اور مضامین کا مجموعہ ہے موضوعات کے بےباک انتخاب اور تنوع کے لحاظ سے ایک بے مثل کتاب ہے۔ فرنود کے چند فکر انگیز اقتباسات کتاب کے فیس بک صفحے پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ اکثر مضامین میں جون کا اسلوب مصلحانہ ا ور خطیبانہ معلوم ہوتا ہے- جون نے معاشرتی اور قومی مسائل پر جو خامہ فرسائی کی ہے اس سے ان کی حالات و واقعات پر عمیق نظر کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ جون نے جن مسائل کی نشاندہی کی اور جن نتائج سے خبردار کیا تھا ان کو آج ہم اپنے معاشرے میں شرمندہ نگاہوں سے ہر روز دیکھتے ہیں۔
جون نے اقتصادیات، اخلاقیات ، لسانی اور علاقائی تعصب ، جنونیت، برصغیر کی تاریخ اور تہذیب، فرسودہ روایات اور اقدار جیسے حساس موضوعات پر قلم اٹھایا اور اپنے سوالات و افکار سے معاشرتی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مجذوب دیوانہ اپنے قبیلے کے لوگوں کو چاروں طرف لگی آگ سے خبردار کرنے کے لئے اپنی قوت کی آخری حد تک چلا رہا ہے مگر اس کی قوم کھیل تماشوں اور فروعی اختلافات میں الجھی ہوئی ہے۔ وہ لوگوں کے گریبان اور دامن کھینچ کھینچ کر ان کو جلتے ہوئے گھر اور بکھری ہوئی لاشوں کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن کوئی اس کی بات سننے کو تیار نہیں، یہاں تک کہ بالآخر وہ آ گ لوگوں کے جسم کو جلانا شروع کر دیتی ہے، لیکن اب بھی وہ اپنے جھگڑوں میں اس قدر مگن ہیں کہ اس کی کرب ناک صداؤں پر کان نہیں دھرتے ۔
جون کی تحریر میں جو تلخی ، مایوسی اور طنز پایا جاتا ہے اس کی یہ توجیہ کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی دانش ور نگاہوں سے نہ صرف اس آ گ کو دیکھ رہے تھے بلکہ اپنی حساس طبعیت کی وجہ سے اس کی حدت اور تپش کو اذیت ناک حد تک محسوس بھی کر رہے تھے۔ اس اذیت اور کرب کا کچھ ذکر جون نے “شاید” کے دیباچے میں کیا ہے۔ دیباچے کے یہ چند صفحات حقیقی طور پر “انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا” کی تشریح ہیں ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جون کا کلام دراصل پڑھا نہیں جاتا بلکہ یہ قاری پر ایک کیفیت کی طرح شعر بہ شعر اور سطر بہ سطر نازل ہوتا ہے ۔ یہ نزول در حقیقت کرب و الم کی ایک مستقل حالت ہے جو ذہن اور قلب پر جان لیوا انتشار کی صورت میں وارد ہوتی ہے۔ تھامس گرے نے لکھا تھا کہ ” نہ جاننا بھی ایک نعمت ہے”۔لیکن جون کی کم نصیبی یہ ہے کہ وہ جانتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی اور علم اور ادراک کا خراج اپنے لہو سے ادا کر رہے ہیں۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خالد احمد انصاری نے جون کو با الآخر ہم تک پہنچا دیا ہے، لیکن ابھی ہمارا جون تک پہنچنا باقی ہے۔ معاشرے کے علمی شعور نے بہرحال قدم اٹھانا شروع کر دیئے ہیں اور بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔
Boht behtareen
behtareen
پڑھنے کا شکریہ۔